جناح اور بھارتیہ نیتا
------------------
------------------
داکٹر وویک آریہ
حال ہی میں ایک نیتا نے پاکستان کے جنم محمد علی جنا کو کرانتی کاری اور دیش کے لیے سنگھرش کرنے والا بتایا۔ حالانکہ بعد میں وہ اپنے بیان سے پلٹ گئے۔ پورو میں ایک ورشٹھ نیتا نے جنا کو مہان بتا دیا تھا۔ میرے بچار سے جنا کے گنگان کرنے والا ہر نیتا ان ہندوؤں کا اپمان کر رہا ہیں۔ جنہوں نے 1947 میں اپنا سب کچھ دھرمرکشا کے لیے لٹا دیا۔ یہ اپمان ہمارے پوروجوں کا ہے۔ جنہوں نے اپنے پوروجوں کی دھرتی کو تیاگ دیا مگر اپنا دھرم نہیں چھوڑا۔ چاہے اسکے لیے انہوں نے اپنا گھر، پریوار، کھیتکھلہان سب کچھ تیاگنا پڑا۔ ان مہان آتماؤں نے دھرمرکشا کے لیے اپنا سب کچھ نیوچھاور کر دیا۔ آج کے نیتا اپنی بیان بازی کر انکے تیاگ کا اپمان کر رہے ہیں۔
اس لیکھ میں 1947 میں جنا کے ایشاروں پر جو اتیاچار پاکستان میں بلوچ ریجمینٹ نے ہندوؤں پر کیا۔ اسکا الیکھ کیا گیا ہے۔ ہر ہندو کو یہ اتہاس گیات ہونا چاہیئے۔ تاکہ کوئی آگے سے جنا کے گنگان کریں تو اسے یتھوچت پرتیوتر دیا جا سکے۔
وبھاجن پشچات بھارت سرکار نے ایک تتھیانویشی سنگٹھن بنایا جس کا کاریہ تھا پاکستان چھوڑ بھارت آئے لوگوں سے انکی جبانی اتیاچاروں کا لیکھا جوکھا بنانا۔ اسی لیکھا جوکھا کے آدھار پر گاندھی ہتیاکانڈ کی سنوائی کر رہے اچ نیایالیہ کے جج جی ڈی کھوسلا لکھت، 1949 میں پرکاشت ، پستک ' سٹرن ریئلٹی' وبھاجن کے سمے دنگوں ، کتلیام،ہتاہتوں کی سنکھیا اور راجنیتک گھٹناؤں کو دستاویجی سوروپ پردان کرتی ہے۔ ہندی میں اسکا انوواد اور سمیکشا ' دیش وبھاجن کا خونی اتہاس (1946-47 کی کرورتم گھٹھناؤں کا سنکلن)' نام سے سچدانند چترویدی نے کیا ہے۔ نیچے دی ہیی چند گھٹناییں اسی پستک سے لی گئی ہیں جو اونٹ کے منھ میں زیرا سمان ہیں۔
* 11 اگست 1947 کو سندھ سے لاہور اسٹیشن پہنچنے والی ہندؤں سے بھری گاڑیاں خون کا کنڈ بن چکی تھیں۔اگلے دن غیر مسلمانوں کا ریلوے اسٹیشن پہنچنا بھی اسمبھو ہو گیا۔انہیں راستے میں ہی پکڑکر قتل کیا جانے لگا۔اس نرہتیا میں بلوچ ریجمینٹ نے پرمکھ بھومیکا نبھائی۔14اور 15 اگست کو ریلوے اسٹیشن پر اندھادھندھ نرمیدھ کا درشیہ تھا۔ایک گواہ کے انوسار اسٹیشن پر گولیوں کی لگاتار ورشہ ہو رہی تھی۔ ملٹری نے غیر مسلمانوں کو سوتنترتا پوروک گولی ماری اور لوٹا۔
* 19 اگست تک لاہور شہر کے تین لاکھ غیر مسلمان گھٹ کر ماتر دس ہزار رہ گئے تھے۔ گرامین شیتروں میں ستھتی ویسی ہی بری تھی۔پٹوکی میں 20 اگست کو دھاوا بولا گیا جسمیں ڈھائی سو غیر مسلمانوں کی ہتیا کر دی گئی۔غیر مسلمانوں کی دکانوں کو لوٹ کر اس میں آگ لگا دی گئی۔اس آکرمن میں بلوچ ملٹری نے بھاگ لیا تھا۔
* 25 اگست کی رات کے دو بجے شیکھپرا شہر جل رہا تھا۔ مکھیہ بازار کے ہندو اور سکھ دکانوں کو آگ لگا دی گئی تھی۔سینا اور پولس گھٹناستھل پر پہنچی۔ آگ بجھانے کے لئے اپنے گھر سے باہر نکلنے والوں کو گولی ماری جانے لگی۔ اپایکت گھٹناستھل پر بعد میں پہنچا۔ اسنے ترنت کرفیو ہٹانے کا نرنیہ لیا اور اسنے اور پولس نے یہ نرنیہ گھوشت بھی کیا۔لوگ آگ بجھانے کے لئے دوڑے۔پنجاب سیما بل کے بلوچ سینک، جنہیں سرکشا کے لیے لگایا گیا تھا، لوگوں پر گولیاں برسانے لگے۔ایک گھٹناستھل پر ہی مر گیا ، دوسرے حکیم لکشمن سنگھ کو رات میں ڈھائی بجے مکھیہ گلی میں جہاں آگ جل رہی تھی ، گولی لگی۔اگلے دن صبح سات بجے تک انہیں اسپتال نہیں لے جانے دیا گیا۔کچھ گھنٹوں میں انکی موت ہو گئی۔
* گرنانک پورا میں 26اگست کو ہندو اور سکھوں کی سروادھک ویوستھت ودھ کی کاریہ واہی ہوئی۔ملٹری دوارہ اسپتال میں لائے جانے سبھی گھائلوں نے بتایا کہ انہیں بلوچ سینکوں دوارہ گولی ماری گئی یا 25 یا 26 اگست کو انکی اپستھتی میں مسلم جھنڈ دوارہ چھورا یا بھالا مارا گیا۔ گھائلوں نے یہ بھی بتایا کہ بلوچ سینکوں نے سرکشا کے بہانے ہندو اور سکھوں کو چاول ملوں میں اکٹھا کیا۔ان لوگوں کو ان ستھانوں میں جمع کرنے کے بعد بلوچ سینکوں نے پہلے انہیں اپنے قیمتی سامان دینے کو کہا اور پھر نردیتا سے انکی ہتیا کر دی۔گھائلوں کی سنکھیا چار سو بھرتی والے اور لگ بھگ دو سو چلنت روگیوں کی ہو گئی۔ اسکے علاوہ عورتیں اور سیانی لڑکیاں بھی تھیں جو سبھی پرکار سے ننگی تھیں۔سروادھک پرتشٹھت گھروں کی مہلائیں بھی اس بھینکر دو:خد انبھو سے گزری تھیں۔ایک ادھوکتا کی پتنی جب اسپتال میں آئی تب وستت اسکے شریر پر کچھ بھی نہیں تھا۔پرش اور مہلا ہتاہتوں کی سنکھیا برابر تھی۔ہتاہتوں میں ایک سو گھایل بچہ تھے۔
* شیکھپرا میں 26 اگست کی صبح سردار آتما سنگھ کی مل میں قریب سات آٹھ ہزار غیر مسلم شرنارتھی شہر کے وبھن بھاگوں سے بھاگ کر جمع ہوئے تھے۔ قریب آٹھ بجے مسلم بلوچ ملٹری نے مل کو گھیر لیا۔انکے فائر میں مل کے اندر کی ایک عورت کی موت ہو گئی۔اسکے بعد کانگریس سمتی کے ادھیکش آنند سنگھ ملٹری والوں کے پاس ہرا جھنڈا لیکر گئے اور پوچھا آپ کیا چاہتے ہیں۔ ملٹری والوں نے دو ہزار چھ: سو روپے کی مانگ کی جو انہیں دے دیا گیا۔اسکے بعد ایک اور فائر ہوا اور ایک آدمی کی موت ہو گئی۔ پن: آنند سنگھ دوارہ انورودھ کرنے پر بارہ سو روپے کی مانگ ہیی جو انہیں دے دیا گیا۔ پھر تلاشی لینے کے بہانے سب کو باہر نکالا گیا۔سبھی سات آٹھ ہزار شرنارتھی باہر نکل آئے۔سب سے اپنے قیمتی سامان ایک جگہ رکھنے کو کہا گیا۔تھوڑی ہی دیر میں سات آٹھ من سونے کا ڈھیر اور قریب تیس چالیس لاکھ جمع ہو گئے۔ملٹری دوارہ یہ ساری رقم اٹھا لی گئی۔پھر وہ سندر لڑکیوں کی چھنٹائی کرنے لگے۔ورودھ کرنے پر آنند سنگھ کو گولی مار دی گئی۔تبھی ایک بلوچ سینک دوارہ سبھی کے سامنے ایک لڑکی کو چھیڑنے پر ایک شرنارتھی نے سینک پر وار کیا۔اسکے بعد سبھی بلوچ سینک شرنارتھیوں پر گولیاں برسانے لگے۔اگلی پانت کے شرنارتھی اٹھ کر اپنی ہی لڑکیوں کی اجت بچانے کے لئے انکی ہتیا کرنے لگے۔
* 1اکتوبر کی صبح سرگودھا سے پیدل آنے والا غیر مسلمانوں کا ایک بڑا قافلا لایلپر پار کر رہا تھا۔جب اسکا کچھ بھاگ ریلوے پھاٹک پار کر رہا تھا اچانک پھاٹک بند کر دیا گیا۔ہتھیاربند مسلمانوں کا ایک جھنڈ پیچھے رہ گئے قافلے پر ٹوٹ پڑا اور بےرحمی سے انکا قتل کرنے لگا۔رکشک دل کے بلوچ سینکوں نے بھی ان پر فائرنگ شروع کر دی۔بیل گاڑیوں پر رکھا انکا سارا دھن لوٹ لیا گیا۔چونکہ آکرمن دن میں ہوا تھا ، زمین لاشوں سے پٹ گئی۔اسی رات خالصہ کالج کے شرنارتھی شور پر حملہ کیا گیا۔ شور کی رکشا میں لگی سینا نے کھل کر لوٹ اور ہتیا میں بھاگ لیا۔غیر مسلمان بھاری سنکھیا میں مارے گئے اور انیک یووا لڑکیوں کو اٹھا لیا گیا۔
* اگلی رات اسی پرکار آریہ اسکول شرنارتھی شور پر حملہ ہوا۔ اس شور کے پربھار والے بلوچ سینک انیک دنوں سے شرنارتھیوں کو اپمانت اور اتپیڑت کر رہے تھے۔نگدی اور انیہ قیمتی سامانوں کے لئے وہ بار بار تلاشی لیتے تھے۔ رات میں مہلاؤں کو اٹھا لے جاتے اور بلاتکار کرتے تھے۔ 2اکتوبر کی رات کو ودھونش اپنے اصلی روپ میں پرکٹ ہوا۔شور پر چاروں اور سے باربار حملے ہوئے۔سینا نے شرنارتھیوں پر گولیاں برسائیں۔ شور کی ساری سمپتی لوٹ لی گئی۔مارے گئے لوگوں کی سہی سنکھیا کا آکلن سمبھو نہیں تھا کیونکہ ٹرکوں میں بڑی سنکھیا میں لاد کر شووں کو رات میں چین اب میں فیق دیا گیا تھا۔
* کرور میں غیر مسلمانوں کا بھیانک نرسنہار ہوا۔ 70ستمبر کو جلا کے ڈیڑھیلال گاؤں پر مسلمانوں کے ایک بڑے جھنڈ نے آکرمن کیا۔غیر مسلمانوں نے گاؤں کے لمبر دار کے گھر شرن لے لی۔ پرشاسن نے مدد کے لئے دس بلوچ سینک بھیجے۔ سینکوں نے سب کو باہر نکلنے کے لئے کہا۔وہ اورتوں کو پرشوں سے الگ رکھنا چاہتے تھے۔ پرنتو دو سو روپیے گھوس لینے کے بعد عورتوں کو پرشوں کے ساتھ رہنے کی انومتی دے دی۔ رات مے سینکوں نے عورتوں سے بلاتکار کیا۔9 ستمبر کو سب سے اسلام سویکار کرنے کو کہا گیا۔ لوگوں نے ایک گھر میں شرن لے لی۔ بلوچ سینکوں کی مدد سے مسلمانوں نے گھر کی چھت میں چھید کر اندر کروسن ڈال آگ لگا دی۔پینسٹھ لوگ جندا جل گئے۔
یہ لیکھ ہم نے سنکشپت روپ میں دیا ہے۔ وبھاجن سے سمبندھت انیک پستکیں ہمیں اس کال میں ہندوؤں پر جو اتیاچار ہوا۔ اس سے اوگت کرواتی ہے ، ہر ہندو کو ان پستکوں کا ادھئین اوشیہ کرنا چاہیئے۔ کیونکہ
"جو جاتی اپنے اتہاس سے کچھ سبق نہیں لیتی اسکا بھوشیہ نشچت روپ سے اندھکارمیہ ہوتا ہے۔ "